ایک دور ایسا تھا جب لوگ کسی قسم کاٹانک دوائیں ہرگز ہرگز استعمال نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کی غذائیں خود ٹانک تھیں ان کی سبزیوں کو شہر کا گندا پانی نہیں لگتا تھا‘ ان کی سبزیوں کے بیجوں پر کیمیکل اور زہریلی ادویات لگی ہوئی نہیں ہوتی تھیں ان کی گندم شفاف ہوتی تھی اور اس میں گوبر کی کھاد ڈالی جاتی تھی ان کا پانی صاف ہوتا تھا جس میں سینکڑوں فٹ تک اوپر کا کیمیکل نیچے سرائیت نہیں کرچکا تھا ان کی فضاؤں میں آلودگی نہیں تھی جو کہ آہستہ آہستہ غذاؤں پر اپنی تہہ جماتی جاتی ہے ان کے کسان دھوئیں کے ساتھ اپنی فصلیں نہیں بوتےتھے یعنی ٹریکٹر‘ حتیٰ کہ اگر جانور دوران ہل اپنا فضلا ڈالتا تو وہ خود فصل کیلئے کھاد بن جاتا تھا۔ ان میں پیدل چلنا تھا‘ خالص مکھن‘ خالص دیسی گھی اور خالص غذاؤں کا استعمال تھا ‘ان کے پاس وہ مکھن نہیں تھا جس کے اوپر مکھن لکھا ہوا ہو اور وہ بنیادی طور پر سبزیوں کا کچرا اور کوکنگ آئل‘ لیکن اشتہار بہت خوبصورت‘ ان کے پاس جھاگ دار مشروبات نہیں تھے اور ان کی زندگی میں چاکلیٹ‘ برگر‘ فاسٹ فوڈز قسم کی کوئی بھی غذا نہیں تھی‘ چائے کا استعمال نہیں تھا دودھ‘ لسی‘ مکھن ‘بالائی اور دودھ سے بنی ہوئی قسم قسم کی ایسی چیزیں جس کا ہرلقمہ ایک ایسا وٹامن تھا جو جسم کو اے سے زیڈ تک طاقت اور قوت دیتا تھا۔پھر ادوار بدلے ‘حالات بدلے‘ زندگی بدلی مجھے ایک بڑے بوڑھے نے جو ابھی تک زندہ ہیں کہنے لگے مجھے یاد ہے میں چھوٹا سا تھا کہ جب چائے کی پتی ہر چوک پر ابال کر مفت پلائی جاتی تھی اور چائے کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ گھروں میں مفت بانٹے جاتے تھے لوگ حیران ہوتے تھے یہ کیا ہے؟ آج میرا وطن اربوں روپے کی چائے خریدتا ہے پہلے کسان باسی روٹی‘ سبزیوں کا سالن اور لسی کا استعمال کرتا تھا‘ نہ دل کے مسائل‘ نہ بلڈپریشر‘ نہ ٹینشن‘ نہ ہیپاٹائٹس بلکہ پورا جسم طاقتور اور صحت مند ہوتا تھا‘ بچے بھی زیادہ اور صحت مند ہوتے تھے خود بھی لمبی عمریں اور صحت پاتے تھے عمومی عینک لگی ہوئی نہیں ہوتی تھی‘ بوڑھے بھی چاند کی روشنی میں پڑھ لکھ لیتے اور سوئی ڈھونڈ لیتے تھے۔ میں صحراؤں میں انڈیا کے بارڈر تک اکثر جاتا رہتا ہوں وہاں جاکر میں حیران ہوا کہ وہ لوگ جنگلی جڑی بوٹیاں کھانے والی خالص دودھ دینے والی گائے کا دودھ دھو کر پھر اس میں چائے کی پتی ڈالتے ہیں اور وہ بیٹھ کر مزے سے چائے پیتے ہیں۔ مجھے ممبئی کے ایک صاحب کہنے لگے میں ایک گاؤں میں گیا۔ ایک سکھ کا بہت بڑا ڈیرہ تھا وہ میرے لیے بھاگم بھاگ چائے کیتلی میں لے آیا‘ میں نے حیرت سے کہا سردار جی! کیا آپ کی بھینسیں اب چائے دینا شروع ہوگئیں ہیں دودھ نہیں دیتی؟ ہنس پڑا‘ اور اپنے مخصوص لہجے میں کہنے لگا کہ رواج ہی یہی ہے! قارئین! جب غذائیں مصنوعی ہوں اور مصنوعی غذاؤں کے اوپر ایسے عجیب و غریب فائدے لکھے گئے ہوں کہ انسان دھوکے میں آجائیں اور وہ غذائیں بک جائیں اور پھر کینسر کے نام پر ہسپتال بھر جائیں‘ ہیپاٹائٹس کے نام پر مریض بھر جائیں‘ دل کے ہسپتال بنانے مجبوری بن جائیں اور جسم کمزور ہوجائے‘ دماغ ختم ہوجائے‘ یادداشتیں ڈول جائیں‘ اعصاب کھچ جائیں‘ ٹینشن نام کی چیز ہمارا مقدر بن جائے‘ ہماری طبیعت‘ صحت اور ہمارا اعصابی نظام دن بدن ختم ہوتا چلا جائے ایسے وقت میں ہمیں کچھ ٹانک چاہئیں‘ طاقت کا نظام چاہیے جسم اور اعصاب کے تاروں کو صحت دینے کیلئے کچھ سہارے چاہئیں۔ اب ہمارے پاس واحد راستہ صرف ایک ہے وہ ہے کہ ہم پھر فطرت کی طرف لوٹ جائیں‘ یاد رکھیے گا! ٹانک بھی حاصل کرنے کیلئے کسی دواخانے یا لیبارٹری کی کوئی دوا یا کوئی غذائی ٹانک سوچ سمجھ کر استعمال کریں‘ کیونکہ اندر کیا ڈالتے ہیں اس میں ہوتا کیا ہے؟ ایسا کہ جو آپ کو وقتی طاقت دے اور اس کے بعد ہمیشہ کیلئے طرح طرح کی بیماریوں مشکلات عوارضات اور ناممکن مشکلوں میں مبتلا کردے۔
ایسے حالات میں میں ساگودانہ کو ایک بہترین ٹانک پاتا ہوں یہ دراصل ایک قدرتی چیز ہے ایک فطرت ہے اور ایک ایسا فطری نظام ہے جس میں طاقت ہے‘ قوت ہے‘ انرجی ہے‘ دراصل یہ ایک درخت کی جڑ ہے جس کو چھوٹی چھوٹی گولیوں کی شکل دے دی جاتی ہے‘ میں ان شاء اللہ یقین سے آپ کو اعتماد سے حوصلہ دلا رہا ہوں تجربات کی دنیا سے آپ کو ایک زندگی کا ایک انداز دے رہا ہوں اگر آپ اپنی زندگی کو سوفیصد صحت یاب کرنا چاہتے ہیں‘ اعصاب مضبوط کرنا چاہتےہیں‘ دماغ طاقتور سوسال کی عمر جس میں لازوال صحت‘ لازوال حافظہ بے مثال نظر نگاہ اور اس میں قوت اور چمک ہو اعصاب مضبوط ہوں‘ کمر میں طاقت ہو اور پٹھوں اور چال میں گرفت ہو اور اگر آپ چاہتےہیں‘ آپ کی نسلیں صحت مند‘ تنومند اورر آپ کی نسلوں میں زوال نہ ہو‘ لمبی عمر پائیں‘ روز کی ادویات اور روز کے کیمیکل استعمال نہ کریں اور آپ چاہتےہیں کہ ان کی یادداشت مضبوط ہو‘ ملک و قوم کا نام روشن‘ ماں باپ کا نام بلند اور زندگی بے مثال گزاریں تو ساگودانہ خود بھی اور اپنی نسلوں کی زندگی کاحصہ بنالیں۔ یاد رکھیے گا ساگودانہ غذا نہیں دوا بھی ہے دوا نہیں ٹانک بھی ہے ٹانک نہیں ایک جوانی کا تاج اور بڑھاپے کا سہارا بھی ہے۔
اسے اپنی غذا کا حصہ بنائیں اپنے ناشتہ کا حصہ بنائیں اگر اس سے ناشتہ نہیں کرسکتے‘ دن میں کسی وقت کھائیں ‘روزانہ کھائیں‘ تھوڑا کھائیں لیکن کچھ عرصہ مستقل مزاجی سے کھائیں۔ یقین جانیے! اگر آپ ساگودانہ سے دوستی کرلیں اور ساگودانہ کو اپنی زندگی کی صحت کا حاصل بنالیں تو ساگودانہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا‘ بڑی بڑی دواؤں سے بچائے گا اور علاج کے لیے لمبے سفروں سےآپ کو محفوظ رکھے گا اور صحت تندرستی ہمیشہ آپ کی دامن گیر رہیں گی۔
کبھی کبھار آپ اگر کوئی دوا لیتے بھی ہیں تو کبھی کبھار کی دوا بھی ختم ہوجائے گی‘ ہمیشہ صحت مند زندگی‘ صحت مند جوانی ‘ صحت مند تندرستی اور بے داغ زندگی کا انوکھا تعلق آپ کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ یقین جانیے! ساگودانہ ٹانک ہے ساگودانہ صحت کا ساتھی ہے ساگودانہ بڑھاپے کی لاٹھی ہے ساگودانہ جوانی کا دوست ہے ساگو دانہ ہی تو ہے جو مریض سے مریض علیل سے علیل ناتوانہ سے ناتوانہ شخص کو صحت کی روشنی دکھاتا ہے کہ کیا جو آخری لاعلاج مریض صحت دے سکتا ہے‘ وہ تندرست کو مزید تندرست نہیں کرسکتا‘ کیا اس کی طبیعت میں سستی ختم کرکے طاقت اور قوت نہیں دے سکتا کیوں بھولے ہیں؟ آئیں ساری بھولیں بھول جائیں اور آج کے بعد نہیں بھولنا۔ ساگودانہ زندہ باد!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں